منصور آفاق

منصور آفاق
فیس بک کی تحریریں

Tuesday 12 July 2011

منصور آفاق


ایک کالم،منصور آفاق کی سالگرہ پر


روزنامہ جناح ،اسلام آباد(2006ء)میں چھپا

’’ نیند کی نو ٹ بک ‘‘ تو بہت دن سے میرے زیر مطا لعہ تھی ۔ کل جب میں نے اپنے آپ سے یہ سو ال کیا کہ اردو شا عر ی کی یہ کتا ب اس عہد کے دو سرے تمام دوسر ے تما م شا عرو ں کے مجمو عوں سے کس طرح مختلف ہے تو جواب ڈھو نڈ تے ہوئے کچھ پالینے کی خو شی بھی ہوئی اور یہ احسا س بھی ہوا کہ آج ہم واقعی غا لب و مو منِ کے دو ر سے نکل آئے ہیں۔آپ اس با ت سے اتفاق کر یں گے کہ ہما رے ہا ں جس غز ل کو عمو ما ً نئی غز ل کہا جا تا ہے ، وہ تو میر ، غالب اور انیس کے عہد کا تسلسل ہے ۔ آپ میر کو پڑ ھیں نا صر ، فرا ق یا احمد مشتا ق کی کتا ب اٹھا لیں لہجے میں کچھ زیا دہ فر ق محسو س نہیں ہوگا۔ مجھے تو فیض ، ند یم اورفرا ز غا لب کے ہی عہد کے شا عر لگتے ہیں تو ہم اس شا عر ی کو جس کا لب و لہجہ ، جس کے الفا ظ اور جس کا منظر نا مہ میر و غا لب کے دو ر کا ہو اپنے عہد کا نما ئندہ کیسے قرا ر دے سکتے ہیں۔ ایسی صو ر تحا ل میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ منصو ر آفا ق کی کتاب ’’ نیند کی نو ٹ بک ‘‘ بار ش کا پہلا قطر ہ ثا بت ہوگی۔ منصو ر آفاق کا ایک شعر ہے دیکھ مت بھیج یہ میسج ہمیں مو با ئل پر ہم بہت دور کہیں روٹھ کے آئے ہوئے ہیں میرے خیا ل میں اس جیسا شعر اٹھا رویں اور انیسو یں صد ی تو کُجا بیسو یں صد ی میں بھی نہیں کہا جا سکتا تھا ۔ چو نکہ مو با ئل اور میسج کی اصطلا حو ں کا تعلق آج کے دو ر سے ہے ۔ اس لیے شعر سُن کر یا پڑ ھ کر یہی احسا س ہو تا ہے کہ شا عر زما نہ حال کی بات کر رہا ہے ۔ اس کے بر عکس جب ہم قا صد یا نامہ بر کی وساطت سے کسی پیغا م کی بات کر تے ہیں تو ذہن فو را ً اٹھارویں اور انیسو یں صد ی میں جا پہنچنا ہے ۔منصو ر آفا ق کے ایک اور شعر سے بھی آج کا منظر نامہ آنکھوں میں در آتاہے اترا کہیں پہ اور مرِے وصل کا براق منصور پاسپور ٹ پہ ویز ا کہیں کا تھا میں یہ بات تسلیم کر تا ہوں کہ غزل میں تغزل کا خیال رکھتے ہوئے نئے الفا ظ استعمال کر نا بہت مشکل کا م ہے مگر یہ حقیقت ہے کہ منصو ر آفا ق نے یہ سب کچھ کر دکھا یا ہے ۔ مو جو د غزل میں جو الفا ظ استعمال ہو رہے ہیں وہ ایک پور ی روا یت کیسا تھ مو جو د ہیں۔ اس رو ایت میں وہ سینکڑو ں نہیں بلکہ لا کھوں با راستعمال ہوئے ہیں اور ہمارے شا عر ان الفا ظ کی نشت و بر خا ست سے بخو بی و اقف ہیں لیکن جب ان الفا ظ کو پہلی با ر شا عر ی میں استعمال کر نا پڑ ا ہو ا تو شاعر نے ہزا ر بارسو چا ہو گا کہ ان میں رچا ئو کیسے پیدا ہوگا ۔ منصو ر آفاق بھی ساقی فاروقی کے الفاظ میں جو انگر یزی کے الفا ظ ’’اردو انے‘‘ میں کا میا ب ہوئے ہیں اس کے پیچھے یہ گہر ی سوچ کا ر فر ما ہے کہ مصر عے کی کرا فٹ اس طر ح کی جا ئے کہ نئے الفا ظ سے اجنبیت کا احسا س نہ ابھر ے ۔ منصو ر آفا ق کو مبا ر ک ہو کہ وہ اس میں کا میا ب ہوگئے ہیں اور اب ان الفاظ کے استعمال میں وہ حسن ہے ، اتنی نر مگی اور نر می ہے کہ وہ کسی کے دل کے تار بھی چھیڑ سکتے ہیں ۔ میں اس کا ثبو ت انگر یز ی کے ایک عا م سے لفظ پب سے دینا چا ہو ں گا ۔ شرا ب خا نے کی ایک مشہور قسم کو دنیا میں پب کہا جا تا ہے ۔ منصور نے اس لفظ کو جس طر ح برتا ہے ۔ یہ احسا س نہیں ہو تا کہ اس سے پہلے اردو غزل میں یہ لفظ مو جو د نہیں تھا ۔ قر یب تر کسی پب کے مر ی رہا ئش تھی اسی قر ابت مے نے قسم کو تو ڑ دیا کہا جا تا ہے کہ نئے الفا ظ کے پاس اجنبیت کے کھر در ے پن کے سا تھ سا تھ حقیقت کی کر ختگی بھی ہو تی ہے جبکہ شا عر ی تو خو اب جیسا عمل ہے۔ اس بات سے بھی اتفاق ممکن ہے مگر منصو ر آفاق کا شعر دیکھئے ، اس میں کا ر کے لفظ پر غور کیجئے اور سو چئے کہ کیا یہ شعر کسی طر ح سے بھی غز ل کے مزا ج پر با ر محسو س ہو تا ہے سو چ کا ثا نیہ دم بھر کو گیا یا ر کے پا س پا ئو ں بے سا ختہ لے آئے مجھے کا ر کے پاس کچھ لو گوں کا یہ بھی خیا ل ہو سکتا ہے کہ شعو ری طو ر پر نئے لفظو ں کا استعمال شا عر ی میں در ست نہیں ۔ مجھے ان کی بات سے سو فیصد اتفا ق سہی مگر یہ بھی تو حقیقت ہے کہ وقت کتنی تیز ی سے تبدیل ہوتا چلا جا رہا ہے۔ امر یکی مفکر آلون ٹا فلر کہتا ہے کہ وقت کی پہلی لہر کو ختم ہو نے میں ہزا رو ں سال لگے جبکہ دوسری لہر دو سو سا ل میں ختم ہو گئی اور تیسری لہر اس سے بھی کم عر صے میں اپنے انجا م کی طر ف رو ا ں دوا ں ہے۔ اب جب ہر چیز تیز ی سے تبد یل ہو تی دکھائی دے رہی ہے ۔ ایک منظر پر نگا ہ ٹھہر تی نہیں کہ دو سرا سا منے آکھڑا ہوتا ہے ۔ اس تیز رفتا ری میں بہت سی چیز یں پیچھے رہ گئی ہیں ۔ اورہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اردو شاعر ی بھی وقت کا سا تھ نہیں دے سکی ۔ اس حقیقت پر ہنسی بھی آتی ہے کہ اب ہم جس گھر میں رہتے ہیں اس کی کو ئی چیز اردو شا عر ی میںمو جود نہیں ہم گھر سے با ہر جس سٹر ک سے گز ر تے ہیں اردو شا عر ی اس سٹر ک ،اس با زا ر ، اس ما رکیٹ ، اس پا رک اور اس سٹر یٹ سے آشنا ہی نہیں ۔ ہم جس رفتر میں کا م کرتے ہیں وہاں کی کسی چیز سے بھی اردو شا عر ی کو کوئی ربط نہیں ۔اردو شاعر ی آج بھی’’ نہ گنوا ئو نا وک نیم شب‘‘ سے شر و ع ہو تی ہے اور ’’سو اس کو سر مہ فروش آہ بھر کے دیکھتے ہیں ‘‘ پر ختم ہو جا تی ہے اور منصو ر آفاق جیسا ذہن رکھنے والا شخص یہ سو چنے پر مجبو ر ہو جا تا ہے کہ جس صد ی میں ہم جی رہے ہیں وہ کہاں رہ گئی ایک اور اہم بات بھی کہ ہم جس مو ضو ع پر شعر کہہ رہے ہوتے ہیں کیا اس کا ہما رے ز ما نے سے تعلق ہو تا بھی ہے یا نہیں کہیں ایسا تو نہیں کہ لندن میںبیٹھ کر میا نو الی کے قصبے ’’ چور والا‘‘ کی با ت کی جا رہی ہو یا اکیسو یں صد ی میںسو لھو یں صد ی کا خوا ب دیکھا جا رہا ہو ۔ اظہا ر الحق جیسے جد ید لہجے کے شا عر نے بھی کہا ہے کہ پہرا تھا کڑا شہر کے دروا زوںپہ جس وقت پیغا م عدو کو میرے اک تیرے سے پہنچا لیکن منصو ر آفا ق نے اس کے بر عکس اس شا عر ی کو زیا دہ اہمیت دی ہے جس کے موضو عا ت آج کے ہیں ۔ ریل کی پٹر ی بچھا دی زند گی نے آس پاس ایک کانچ کیا بنا یا تھا کہیں پھو لو ں کے بیچ یقینا ریل کی پٹری کے قر ب و جوا ر کے رہنے والے اور ائر پور ٹ کے نزدیک جہا زوںکی آوازیں سننے والے جس کر ب سے دو چا ر ہو تے ہیں اس کا انداز ہ اٹھا رویں صد ی میں رہنے والے لوگ نہیں کرسکتے تھے۔ میں خود را ولپنڈی کی معر وف ترین شا ہر اہ پر ایک ایسے مکا ن کا قیدی ہوں جہاں کا رو ں کا بے ہنگم شو ر را ت دو بجے تک بھی پر سکون نیند نہیں لینے دیتا ۔ کیا میرے اس شہر مکان اور میا نوا لی کے گا ئو ں کے مکان میں کوئی فرق نہیں ہے۔

No comments:

Post a Comment