ردیف م
mansoor afaq poetry
غزل
اب آسماں نژاد بلائوں کا خوف ختم
بجلی کے ہیں چراغ ، ہوائوں کا خوف ختم
تلوئوں تلے لگا لئے سیارے وقت نے
ہر لمحہ سوچتے ہوئے پائوں کا خوف ختم
بادل بڑے گرجتے ہیں باراں بکف مگر
سینہ نہیں دھڑکتا، خدائوں کا خوف ختم
اک چشمہ ء شعور پہ اپنی رگوں کے بیچ
ہم شیر مار آئے ہیں، گائوں کا خوف ختم
سورج تراش لائے ہیں صحن ِعلوم سے
سہمی ہوئی سیاہ فضائوں کا خوف ختم
ہم نے طلسم توڑ لیا ہے نصیب کا
جادو نگر کی زرد دعائوں کا خوف ختم
اب شرم سار ہوتی نہیں ہے سنہری دھوپ
پلکوں پہ سرسراتی گھٹائوں کا خوف ختم
دروازہ ء وصال کے قبضے اکھڑ گئے
شام ِ فراق والی سزائوں کا خوف ختم
کوہ ندا کے کھل گئے اسرار آنکھ پر
آسیب ِ آسماں کی صدائوں کا خوف ختم
اپنا لی اپنے عہد نے تہذیب جین کی
اکڑی ہوئی قدیم قبائوں کا خوف ختم
ہم رقص کائنات ہے منصور ذات سے
اندر کے بے کنار خلائوں کا خوف ختم
دیوان منصور آفاق
بجلی کے ہیں چراغ ، ہوائوں کا خوف ختم
تلوئوں تلے لگا لئے سیارے وقت نے
ہر لمحہ سوچتے ہوئے پائوں کا خوف ختم
بادل بڑے گرجتے ہیں باراں بکف مگر
سینہ نہیں دھڑکتا، خدائوں کا خوف ختم
اک چشمہ ء شعور پہ اپنی رگوں کے بیچ
ہم شیر مار آئے ہیں، گائوں کا خوف ختم
سورج تراش لائے ہیں صحن ِعلوم سے
سہمی ہوئی سیاہ فضائوں کا خوف ختم
ہم نے طلسم توڑ لیا ہے نصیب کا
جادو نگر کی زرد دعائوں کا خوف ختم
اب شرم سار ہوتی نہیں ہے سنہری دھوپ
پلکوں پہ سرسراتی گھٹائوں کا خوف ختم
دروازہ ء وصال کے قبضے اکھڑ گئے
شام ِ فراق والی سزائوں کا خوف ختم
کوہ ندا کے کھل گئے اسرار آنکھ پر
آسیب ِ آسماں کی صدائوں کا خوف ختم
اپنا لی اپنے عہد نے تہذیب جین کی
اکڑی ہوئی قدیم قبائوں کا خوف ختم
ہم رقص کائنات ہے منصور ذات سے
اندر کے بے کنار خلائوں کا خوف ختم
دیوان منصور آفاق
No comments:
Post a Comment