منصور آفاق

منصور آفاق
فیس بک کی تحریریں

Tuesday 12 July 2011

ردیف ہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دیوان ِمنصور آفاق


ردیف ہ
mansoor afaq poetry


پہلی غزل

یہی تیرے غم کا کِتھارسز ، یونہی چشمِ نم سے ٹپک کے پڑھ
یونہی رات رات غزل میں رو ، یونہی شعر شعر سسک کے پڑھ

جو اکائی میں نہیں ذہن کی اسے سوچنے کا کمال کر
یہ شعور نامہ ئ خاک سن ، یہ درود لوح ِ فلک کے پڑھ

یہی رتجگوں کی امانتیں ہیں بیاضِ جاں میں رکھی ہوئی
جو لکھے نہیں ہیں نصیب میں وہ ملن پلک سے پلک کے پڑھ

مرے کینوس پہ شفق بھری نہ لکیریں کھینچ ملال کی
کوئی نظم قوسِ قزح کی لکھ کوئی رنگ ونگ دھنک کے پڑھ

ترے نرم سر کا خرام ہو مری روح کے کسی راگ میں
مجھے انگ انگ میں گنگنا ، مرا لمس لمس لہک کے پڑھ

یہ بجھادے بلب امید کے ، یہ بہشتِ دیدِ سعید کے
ابھی آسمان کے بورڈ پر وہی زخم اپنی کسک کے پڑھ

او ڈرائیور مرے دیس کے او جہاں نما مری سمت کے
یہ پہنچ گئے ہیں کہاں پہ ہم ،ذرا سنگ میل سڑک کے پڑھ

کوئی پرفیوم خرید لا ، کوئی پہن گجرا کلائی میں
نئے موسموں کا مشاعرہ کسی مشکبو میں مہک کے پڑھ

ہے کتاب ِ جاں کا ربن کھلا کسی ووڈکا بھری شام میں
یہی افتتاحیہ رات ہے ذرا لڑکھڑا کے ، بہک کے پڑھ

یہ ہے ایک رات کا ناولٹ ، یہ ہے ایک شام کی سرگزست
یہ فسانہ تیرے کرم کا ہے ، اسے اتنا بھی نہ اٹک کے پڑھ

کئی فاختائوں کی ہڈیاں تُو گلے میں اپنے پہن کے جا
وہ جو عہد نامہ ئ امن تھا اسے بزم شب میں کھنک کے پڑھ




دیوان منصور آفاق  



ردیف ہ


دوسری غزل

عالمی بنک کے اک وفد کی تجویز پہ وہ
بم گراتا رہا خود اپنی ہی دہلیز پہ وہ

کیا بتاتا کہ مرا اس سے تعلق کیا تھا
رو بھی سکتا نہ تھا تکفین پہ تجہیز پہ وہ

کھوجنی پڑتی ہے ماتھے سے وہ قیمت لیکن
ایک لیبل سا لگا دیتا ہے ہر چیز پہ وہ

ہو نہیں سکتا شب و روز کا مالک کوئی
عمر ہر شخص کو دتیا ہے فقط لیز پہ وہ

اس نئے دور کا منصور عجب عامل ہے
نام خود اپنا ہی لکھ دیتا ہے تعویز پہ وہ




دیوان منصور آفاق  



ردیف ہ


تیسری غزل

یا بدن کے سرخ گجروں کی مہک محدود رکھ
یا مجھے اپنے ڈرائنگ روم تک محدود رکھ

دھن کوئی کومل سی بس ترتیب کے لمحے میں ہے
اے محافظ کالے بوٹوں کی دھمک محدود رکھ

سو رہا ہے تیرے پہلو میں کوئی غمگین شخص
چوڑیوں کی رنگ پروردہ کھنک محدود رکھ

باغباں ہر شاخ سے لپٹے ہوئے ہیں زرد سانپ
گھونسلوں تک اپنی چڑیوں کی چہک محدود رکھ

جاگنے لگتے ہیں گلیوں میں غلط فہمی کے خواب
آئینے تک اپنی آنکھوں کی چمک محدود رکھ

لوگ چلنے لگتے ہیں قوسِ قزح کی شال پر
اپنے آسودہ تبسم کی دھنک محدود رکھ




دیوان منصور آفاق  



ردیف ہ


چوتھی غزل

چل رہی ہے زندگی کی اک بھیانک رات ساتھ
پھر بھی میں ہوں جلتی بجھتی روشنی کے ساتھ ساتھ

میں نے سوچا کیا کہیں گے میرے بچپن کے رفیق
اور پھر رخت ِسفر میں رکھ لئے حالات ساتھ

میں اکیلا رونے والا تو نہیں ہوں دھوپ میں
دے رہی ہے کتنے برسوں سے مرا برسات ساتھ

چاہئے تھا صرف تعویذ ِ فروغ ِکُن مجھے
دے دیا درویش نے اذنِ شعور ِذات ساتھ

یہ خزاں زادے کہیں کیا گل رتوں کے مرثیے
یونہی بے مقصد ہوائوںکے ہیں سوکھے پات ساتھ

ایک بچھڑے یار کی پرسوز یادوں میں مگن
کوئی بگلا چل رہا تھا پانیوں کے ساتھ ساتھ




دیوان منصور آفاق  



ردیف ہ


پانچویں غزل

اور اب تو میرے چہرے سے ابھر آتا ہے وہ
آئینہ میں دیکھتاہوں اور نظر آتا ہے وہ

حالِ دل کہنے کو بارش کی ضرورت ہے مجھے
اور میرے گھر ہوا کے دوش پر آتا ہے وہ

رات بھر دل سے کوئی آواز آتی ہے مجھے
جسم کی دیوار سے کیسے گزر آتا ہے وہ

وقت کا احساس کھو جاتا تھا میری بزم میں
اپنے بازو پر گھڑی اب باندھ کر آتا ہے وہ

میں ہوا کی گفتگو لکھتا ہوں برگِ شام پر
جو کسی کو بھی نہیں آتا ہنر آتا ہے وہ

سر بریدوں کو تنک کر رات سورج نے کہا
اور جب شانوں پہ رکھ کر اپنا سر آتا ہے وہ




دیوان منصور آفاق  



ردیف ہ


چھٹی غزل

مل جائو تھوڑی دیر تو آکر کسی جگہ
میں جا رہا ہوں شہر سے باہر کسی جگہ

میں روزنامچہ ہوں تری صبح و شام کا
مجھ کو چھپا دے شلِف کے اندر کسی جگہ

جادو گری حواس کی پھیلی ہوئی ہے بس
ہوتا نہیں ہے کوئی بھی منظر کسی جگہ

کچھ دن گزارتا ہوں پرندوں کے آس پاس
جنگل میں چھت بناتا ہوں جا کر کسی جگہ

منصور اس گلی میں تو آتی نہیں ہے دھوپ
گھر ڈھونڈھ کوئی مین سڑک پر کسی جگہ




دیوان منصور آفاق  


ردیف ہ


ساتویں غزل

پائوں کی وحشت بچھاتی جارہی ہے راستہ
جیپ جنگل میں بناتی جا رہی ہے راستہ

احتراماً چل رہا ہوں میں سڑک کے ساتھ ساتھ
اور سڑک ہے کہ بڑھاتی جا رہی ہے راستہ

اک بڑی اونچی پہاڑی رفتہ رفتہ ہاتھ سے
میرے پائوں میں گراتی جا رہی ہے راستہ

سوچتا ہوں میری پرُآشوب بستی کس لئے
اپنا دریا سے ملاتی جا رہی ہے راستہ

پیچھے پیچھے پائوں اٹھتے جا رہے ہیں شوق میں
آگے آگے وہ بتاتی جارہی ہے راستہ

رہ بناتا جا رہا ہوں وقت میں منصور میں
عمر کی آندھی اڑاتی جا رہی ہے راستہ




دیوان منصور آفاق  

No comments:

Post a Comment