منصور آفاق

منصور آفاق
فیس بک کی تحریریں

Tuesday 12 July 2011

ردیف ذ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دیوان ِمنصور آفاق


ردیف ذ
mansoor afaq poetry


غزل

پڑے ہیں جو قلم کے ساتھ کاغذ
یہی ہیں ہر دھرم کے ساتھ کاغذ

جلا آیا جلوسِ دانشِ دیں
شعورِ محترم کے ساتھ کاغذ

جڑے بس رہ گئے ہیں داستاں میں
ترے عہد ِستم کے ساتھ کاغذ

یہی بس التماسِ دل کہ رکھنا
یہ دیوارِ حرم کے ساتھ کاغذ

پرندے بنتے جاتے ہیں مسلسل
ترے فضل و کرم کے ساتھ کاغذ

میانوالی میں آئے ہیں فلک سے
یہ امکانِ عدم کے ساتھ کاغذ

خود اپنے قتل نامے کا کسی کو
دیا پورے بھرم کے ساتھ کاغذ

کسی مبہم سی انجانی زباں میں
پڑے ہیں ہر قدم کے ساتھ کاغذ

الٹنے ہیں پلٹنے ہیں لحد تک
خیالِ بیش و کم کے ساتھ کاغذ

یہ وہ تہذیب ہے جو بیچتی ہے
ابھی دام و درم کے ساتھ کاغذ

کسی کو دستخط کرکے دئیے ہیں
سرِ تسلیم خم کے ساتھ کاغذ

درازوں میں چھپانے پڑ رہے ہیں
کلامِ چشمِ نم کے ساتھ کاغذ

کسی عباس نے لکھا ہے خوں سے
یہ چپکا دے علم کے ساتھ کاغذ

چمکتے پھر رہے ہیں آسماں کے
چراغِ ذی حشم کے ساتھ کاغذ

بدل جاتے ہیں اکثر دیکھتا ہوں
مری تاریخ ِغم کے ساتھ کاغذ

ابد کے قہوہ خانے میں ملے ہیں
کسی تازہ صنم کے ساتھ کاغذ

ہوئے ہیں کس قدر منصور کالے
یہ شب ہائے الم کے ساتھ کاغذ




دیوان منصور آفاق  

No comments:

Post a Comment