منصور آفاق

منصور آفاق
فیس بک کی تحریریں

Tuesday 12 July 2011

منصور آفاق کی نعتیہ شاعری


سید نصیر شاہ
سید نصیر شاہ منصور آفاق کے حوالے سے فرماتے ہیں
علامہ اقبال نے ’’ پیام ِ مشرق ‘‘ کے دیباچہ میں لکھا تھا ’’ یوروپ کی جنگ ِ عظیم ایک قیامت تھی جس نے پرانی دنیا کے نظام کو قریباً ہر پہلو سے فنا کر دیا ہے اور اب تہذیب و تمدن کی خاکستر سے فطرت ،زندگی کی گہرائیوں میں ایک نیا آدم اور اس کے رہنے کے لیے ایک نئی دنیا تعمیر کررہی ہے ’’ مگر یہ اقبال کی بے بنیاد خوش گمانی تھی۔ ابھی اقبال کی قبر کی مٹی بھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ دوسری عالمی جنگ چھڑگئی اور اس میں انسان کہلانے والے درندوں نے پہلی عالمی جنگ کی بربریت کو بہت پیچھے چھوڑ دیا اور اس قیامت نے وہ بہت بڑا درندہ پیدا کر دیا جو آج تک دنیا کے ہر گوشے میں آدم بو ‘ آدم بو‘‘ کی وحشیانہ پکار بلند کر تا انسانی لہو پیتا پھر رہا ہے۔ جھوٹ کہتے ہیں وہ لوگ جو اسے ’’ تہذیبوں کا تصادم ‘‘ قرار دیتے ہیں۔ تہذیب ہے کیا ؟ تہذیب کی تاریخ کا سب سے بڑا سکالر رابرٹ بریفالٹ اپنی معروف کتاب The Making of Humanity میں کہتا ہے ۔ ’ ’ کلچر اور تہذیب سے مراد صرف آرٹ ، مادی عیش و راحت کا سامان علم و دانش کی کامرانیاں نہیں تہذیب کا انحصار انسانوں کے باہمی معاملات میں عدل ، مساوات اور انسانیت کی اعلیٰ اقدار کی پاسداری پر ہے ‘‘ ( P.302 ) استحصال کاروں اور ہوس زر کے مریضوں کی درندگی مغربی تہذیب ہے نہ مذہبی جنونیوں کی دہشت گردانہ وحشت اسلامی تہذیب ہے یہ تو جنگ پسند سامراج اقوام عالم کی معیشت اور ان کے وسائل حیات پر قابض ہونے کے لیے اور کرہ ارض پر اپنی خدائی کا ڈنکا بجانے کے لیے آدمیوں کو آدمیوں سے مروار رہا ہے ۔ مسلمان اس کا ہدفِ خاص ہیں کہ ان کے پاس ’’ سیال سونے ‘‘ کے سمندر ہیں ۔اشتراکی روس کی شکست وریخت کے بعد یہ سفاک درندہ بالکل بدلگام ہوگیا ہے ۔ درندوں کی تہذیب ہوتی ہے ،نہ مذہب۔ اس لیے یہ مذاہب کی آویز ش بھی نہیں۔ مذاہب تو امن، انسانیت او رعدل و انصاف کے نقیب ہیں۔ سامراج کی چیرہ دستیوں اور دسیسہ کاریوں سے زندگی کا ہر گوشہ متاثر ہو ااور سب سے زیادہ متاثر ادب ہوا کہ اسے زندگی سے الگ کر دیا گیا۔ ہر لمحہ نئی قیامتیں گزررہی ہیں ۔ہر لحظہ نئے نئے محشر بپا ہورہے ہیں ۔ مگر ادیب ’’ سو ہے وہ بھی آدمی ‘‘ دیکھنے والی آنکھ سے محروم ہے۔ اسے آدمی کہیں دکھائی نہیں دیتا۔ وہ لفظوں کی صناعی میں گم ہے۔ وہ حشیش کے احساس فریب بہشتوں میں مدہوش پڑا ہے۔ اس طرح ادب فرصت زادوں کا مشغلہ بن گیا ہے ۔ شاید اس بھیڑ میں منصور اکیلا ہے جو سارتر کی طرح انسانیت کے اس قتل ِ عام پر چیخ اٹھا ہے۔ اس کی سوچوں پر جو بجلیاں گری ہیں انہوں نے اسے خاکستر نہیں کیا۔ اس نے بڑی دانائی سے ان بجلیوں سے روشنیاں چن لی ہیں اور یہ روشنیاں اس کی شریانوں میں بہتے بہتے اس کی قلم سے برسنے لگی ہیں ۔ اس کے پاس دنیا ئے انسانیت کے سب سے بڑے داعی انقلاب جناب ﷺ کی غیر فانی محبتوں کے عزم و ثبات بھرے سہارے ہیں اور وہ ’’ الغیاث الغیاث‘‘ پکارتا کر بلائوں میں نکل آیا ہے ۔ وہ شہیدوں کی لاشیں اٹھارہا ہے اور مظلوموں پر حملہ آور ہونے والی آگ میں اپنے حصے کے شعلے اپنی روح میں اتار رہا ہے ۔ ان ہی شعلوں سے اس کا مخصوص لہجہ ابھرا ہے۔ اس نے کتاب لکھ کر کوئی نئی دیوار گریہ تعمیر نہیں کی ۔ اس کی یہ کتاب ’’ من انصار یں الیٰ اللہ ‘‘ کی پکار ہے۔ کیا اردو ادب کے مدہوش شبستانوں میں اس پکار سے کوئی زلزلہ برپا ہوگا ؟( نعتیہ مجموعہ عہد نامہ کا فلیپ)

No comments:

Post a Comment